Seven Wonders of the world in urdu
دنیا کے سات عجائبات – انسانی ذہانت کے عظیم شاہکار
دنیا کے سات عجائبات تاریخ کے وہ شاندار نمونے ہیں جو نہ صرف فن تعمیر کی بلندی کو ظاہر کرتے ہیں بلکہ انسانی تخلیقی صلاحیتوں، سائنسی علم اور محنت کا ثبوت بھی ہیں۔ یہ عجائبات قدیم دنیا کی وہ یادگاریں ہیں جنہوں نے اپنے دور میں لوگوں کو حیرت زدہ کر دیا اور آج بھی تاریخ کے صفحات میں زندہ ہیں۔
ان عجائبات میں سے کچھ صرف تحریری حوالوں میں ملتے ہیں جبکہ دیگر کے آثار یا باقیات آج بھی دنیا کے مختلف عجائب گھروں میں محفوظ ہیں۔ ان عجائبات کا ذکر سب سے پہلے یونانی مورخوں اور سیاحوں نے کیا تھا، اور آج یہ تاریخ، سیاحت اور تعمیرات کے شوقین افراد کے لیے دلچسپی کا بڑا ذریعہ ہیں۔
آئیے ان میں سے ہر ایک عجوبے پر تفصیل سے نظر ڈالتے ہیں
1۔ اہرام مصر Great Pyramid of Giza
مقام: جیزہ، قاہرہ کے قریب
تعمیر: تقریباً 2560 قبل مسیح
بنانے والا: فرعون خوفو
اہرام مصر دنیا کا واحد قدیم عجوبہ ہے جو آج بھی قائم ہے۔ یہ عظیم اہرام "خوفو کا اہرام" کہلاتا ہے اور اسے قدیم مصر کے فرعون خوفو نے تعمیر کروایا تھا۔
یہ اہرام اپنی اصل حالت میں 481 فٹ بلند تھا، جبکہ آج یہ 455 فٹ بلند رہ گیا ہے۔ اس کی تعمیر میں تقریباً 2.3 ملین پتھر کے بلاکس استعمال ہوئے، جن میں سے ہر ایک کا وزن تقریباً 2.5 ٹن ہے۔ اس عظیم ڈھانچے کا رقبہ 13 ایکڑ پر محیط ہے، جو اسے دنیا کی سب سے عظیم اور حیرت انگیز تعمیرات میں شامل کرتا ہے۔
یہ نہ صرف مصر کی تہذیب بلکہ پوری دنیا کے لیے انسانی عزم، انجینئرنگ اور مہارت کی ایک مثالی علامت ہے۔
2۔ بابل کے معلق باغات (Hanging Gardens of Babylon) خواب یا حقیقت؟
مقام: موجودہ عراق
تعمیر: تقریباً 600 قبل مسیح
بنانے والا: نبوکدنضر دوم
بابل کے معلق باغات کو دنیا کے سب سے خوبصورت اور منفرد عجائبات میں شمار کیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ باغات نبوکدنضر دوم نے اپنی بیوی ملکہ آمیتہ کے لیے بنوائے تاکہ وہ اپنے پہاڑی وطن کی یاد کو بھلا سکے۔
یہ باغات پہاڑ نما بلند عمارت پر بنائے گئے تھے جہاں سبزیاں، درخت، پھول اور چھوٹے جھرنے قدرتی آب و ہوا کا نظارہ پیش کرتے تھے۔ یہاں ایک حیران کن آبپاشی کا نظام تھا جو دریائے فرات سے پانی کھینچ کر اوپر تک پہنچاتا تھا۔
تاہم ان باغات کے حقیقی وجود پر ماہرین میں اختلاف ہے، اور بعض مورخین کے مطابق یہ صرف ایک داستان ہو سکتی ہے۔
3۔ زیوس کا مجسمہ Statue of Zeus at Olympia
مقام: اولمپیا، یونان
تعمیر: تقریباً 435 قبل مسیح
بنانے والا: فدیاس
زیوس کا مجسمہ قدیم یونان کے سب سے بڑے دیوتا زیوس کی عظمت کی نمائندگی کرتا تھا۔ یہ مجسمہ 40 فٹ بلند تھا اور لکڑی کے ڈھانچے پر سونے اور ہاتھی دانت سے بنایا گیا تھا۔
مجسمہ ایک عظیم الشان تخت پر بیٹھے ہوئے زیوس کو دکھاتا تھا، جس کے اردگرد خوبصورت نقش و نگار اور زیورات سے مزین حصے تھے۔ اسے دیکھنے والے افراد اس کی عظمت سے مرعوب ہو جاتے تھے۔
بدقسمتی سے یہ مجسمہ یا تو آتشزدگی یا زلزلے کے نتیجے میں تباہ ہو گیا، اور آج صرف اس کے تذکرے ہی باقی رہ گئے ہیں۔
4۔ آرٹیمس کا مندر Temple of Artemis
مقام: ایفسس، ترکی
تعمیر: 550 قبل مسیح
بنانے والا: بادشاہ کروسس
یہ مندر دیوی آرٹیمس (یونانی دیوی ڈیانا) کے لیے بنایا گیا تھا اور اپنے وقت کا سب سے عظیم مذہبی مقام سمجھا جاتا تھا۔
یہ مکمل طور پر سنگ مرمر سے تعمیر کیا گیا تھا اور اس کے 127 بلند ستون تھے، ہر ایک ستون کی اونچائی 60 فٹ تھی۔ مندر کی آرائش اور نقش و نگاری نے اسے ایک فنکارانہ شاہکار بنا دیا تھا۔
262 عیسوی میں گوتھ قبیلے کے حملے میں یہ مندر تباہ ہو گیا، لیکن آج بھی اس کی باقیات آثار قدیمہ کی صورت میں موجود ہیں۔
5۔ موسولس کا مقبرہ Mausoleum at Halicarnassus
مقام: بوڈرم، ترکی
تعمیر: تقریباً 350 قبل مسیح
بنانے والی: ملکہ آرٹیمیسیا دوم
موسولس کا مقبرہ اس کی بیوی ملکہ آرٹیمیسیا دوم نے اپنے شوہر کی یاد میں بنوایا تھا۔ یہ صرف مقبرہ نہیں بلکہ فن تعمیر، سنگ تراشی اور یونانی، مصری و لیدیائی طرزِ تعمیر کا حسین امتزاج تھا۔
یہ مقبرہ 135 فٹ بلند تھا اور اس پر خوبصورت مجسمے اور نقش و نگار بنائے گئے تھے۔ مختلف زلزلوں کے نتیجے میں یہ 12ویں صدی میں مکمل طور پر تباہ ہو گیا، تاہم اس کے کچھ حصے آج بھی لندن کے برٹش میوزیم میں موجود ہیں۔
6۔ روڈس کا مجسمہ Colossus of Rhodes
مقام: روڈس، یونان
تعمیر: 280 قبل مسیح
بنانے والا: چارس آف لینڈوس
یہ مجسمہ سورج دیوتا ہیلیوس کی نمائندگی کرتا تھا اور اسے یونان کی فتح کے جشن میں بنایا گیا تھا۔
یہ 108 فٹ بلند کانسی کا مجسمہ روڈس کی بندرگاہ پر نصب کیا گیا تھا اور اتنا بلند تھا کہ کشتیوں کے گزرنے کے لیے اس کے ٹانگوں کے درمیان سے راستہ تھا – اگرچہ کچھ ماہرین اس خیال کو مبالغہ قرار دیتے ہیں۔
صرف 56 سال بعد ایک شدید زلزلے نے اسے زمین بوس کر دیا اور اسے دوبارہ نہیں بنایا گیا۔
7۔ اسکندریہ کا لائٹ ہاؤس Lighthouse of Alexandria
مقام: فارو، مصر
تعمیر: 280 قبل مسیح
بنانے والا: بطلیموس دوم
اسکندریہ کا لائٹ ہاؤس دنیا کا پہلا باقاعدہ لائٹ ہاؤس تھا جو سمندری جہازوں کو رہنمائی فراہم کرتا تھا۔
یہ 400 فٹ بلند تھا اور تین حصوں پر مشتمل تھا: چوکور بنیاد، آٹھ کونوں والا درمیانی حصہ، اور گول مینار۔ دن میں آئینوں کے ذریعے اور رات میں آگ کے ذریعے روشنی کی جاتی تھی تاکہ دور سے آنے والے بحری جہاز محفوظ طور پر بندرگاہ تک پہنچ سکیں۔
14 ویں صدی کے زلزلوں میں یہ مکمل طور پر تباہ ہو گیا اور بعد میں اس مقام پر قلعہ قایتبے تعمیر ہوا۔
نتیجہ
دنیا کے سات عجائبات صرف ماضی کی عظمت نہیں بلکہ آج کے دور کے لیے سبق ہیں کہ انسان اپنی تخلیقی صلاحیتوں، محنت، اور علم سے کیسے حیران کن چیزیں پیدا کر سکتا ہے۔ یہ عجائبات ہمیں انسانی تاریخ کے ایک شاندار دور میں لے جاتے ہیں جہاں خواب حقیقت میں تبدیل ہوتے تھے۔
اکثر پوچھے جانے والے سوالات
دنیا کے سات قدیم عجائبات کیا ہیں؟
اہرام مصر، بابل کے معلق باغات، زیوس کا مجسمہ، آرٹیمس کا مندر، موسولس کا مقبرہ، روڈس کا مجسمہ، اسکندریہ کا لائٹ ہاؤس۔
کیا یہ عجائبات آج بھی موجود ہیں؟
صرف اہرام مصر مکمل حالت میں موجود ہے، باقی مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔
بابل کے معلق باغات کہاں واقع تھے؟
یہ موجودہ عراق کے شہر بابل میں واقع تھے۔
روڈس کا مجسمہ کس چیز کی علامت تھا؟
یہ سورج دیوتا ہیلیوس کی علامت تھا۔
اسکندریہ کا لائٹ ہاؤس کس لیے استعمال ہوتا تھا؟
یہ بحری جہازوں کو روشنی کے ذریعے راستہ دکھانے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔
اہرام مصر کیسے بنائے گئے؟
یہ لاکھوں پتھروں سے ہاتھوں سے بنائے گئے، جنہیں سلیپروں اور لیورز کے ذریعے اٹھایا گیا۔
زیوس کا مجسمہ کس نے بنایا؟
مشہور یونانی فنکار فدیاس نے۔
آرٹیمس کا مندر کیوں مشہور تھا؟
اس کے سنگ مرمر کے ستون اور فنکارانہ نقش و نگار کی وجہ سے۔
موسولس کا مقبرہ کس کی یاد میں تھا؟
یہ ملکہ آرٹیمیسیا نے اپنے شوہر موسولس کے لیے بنوایا تھا۔
کیا ان عجائبات کو آج بھی دیکھا جا سکتا ہے؟
صرف اہرام مصر اپنی اصل حالت میں موجود ہے، باقی صرف آثار یا میوزیم میں باقیات کی صورت میں دیکھے جا سکتے ہیں۔
اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہو تو ہمارے بلاگ کو فالو کریں اور مزید تاریخی معلومات کے لیے ہمارے ساتھ جڑے رہیں۔
کیا آپ چاہتے ہیں کہ اگلا مضمون "نئے سات عجائبات" یا "اسلامی دنیا کے عجائبات" پر ہو؟
Comments
Post a Comment