imam Hussain waqia karbala in urdu

imam Hussain waqia karbala in urdu

 

امام حسین علیہ السلام کی پیدائش

نواسہ مصطفی جگر گوشہ مرتضیٰ سید الشہدا شہید کربلا حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی ولادت باسعادت 5 شعبان 4 ہجری کو مدینہ منورہ میں ہوئی۔
اللہ تعالیٰ کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کے مبارک کان میں اذان دی اور منہ میں اپنا لعاب شریف ڈالا اور پھر ساتویں دن آپ کا مبارک نام حسین رکھا اور عقیقہ بھی کیا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت ہارون علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کا نام شبر اور شبیر رکھا اور میں نے اپنے بیٹوں کا  انھیں کے ناموں پر حسن و حسین رکھا۔ (شبر اور شبیر کی معنی حسن و حسین بنتی ہے۔)
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ حسن اور حسین جنتی ناموں میں سے دو نام ہیں (سبحان اللہ)۔ عرب کے زمانے جاھلیت میں یہ دونوں نام نہیں تھے۔

واقعہ کربلا

امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کی بات تو بچپن سے ہی مشہور تھی کہ امام حسین علیہ السلام کربلا کے میدان میں شہید کیئے جائیں گے۔

جب حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ اپنے رفقاء کے ساتھ کربلا کے میدان میں تشریف لے گئے تو پہلے آپ کے ساتھ آنے والے جو مسلمان تھے اور اہل بیت کے نوجوان یعنی پہلے آپ کے رفقاء اور اس کے بعد خصوصیت کے ساتھ اہل بیت اطہر کے جو جوان تھے ان کو ظالم یزیدیوں نے شہید کیا، اس کے بعد جب امام  حسین رضی اللہ تعالی عنہ میدان میں تشریف لے گئے چونکہ آپ کا دبدبہ بہت تھا اور آپ شیر ابنِ شیر تھے، آپ کے مقابلے کی طاقت کسی میں نہ تھی اور ہر طرف گھبراہٹ پھیل گئی اور آپ جس طرف حملا فرماتے تو یزیدیوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ دیتے۔
یہ پوزیشن یہ صورتحال دیکھ کر ابن سعد اور اس کے مشیروں کو بڑی  تشویش ہوئی کہ اکیلے امام حسین کے سامنے ہزاروں کی لشکر بے فائداہ ہے تاریخ عالم میں ہمارے یہ نامردی کا واقعہ ہماری رسوائی کے طور پر آئندہ آنے والی نسلوں کو بتایا جائے گا، کچھ تدبیر کرنی چاہیے چنانچہ مشورے سے یہ طے ہوا  کہ ایک ایک کر کے لڑنے سے تو اس جنگ میں ہماری ساری کی ساری فوج بھی  شیر ابن شیر سے مقابلہ نہیں کر سکتی۔ ہمیں ایک ساتھ چاروں طرف سے حضرت امام حسین پر حملے کرنے چاہییں۔

اب حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ پر چاروں طرف سے تیر برسائے جا رہے تھے، بدن مبارک تیر اور نیزوں کے حملوں سے شدید زخمی ہو چکا تھا تیر اندازوں کی جماعتیں ہر طرف سے امام حسین علیہ السلام پر تیروں کی بارش برسا رہی تھیں، گھوڑا بھی اس قدر زخمی ہوگیا تھا کہ اس میں مزید آگے بڑھنے یا دوڑنے کی قوت نہ رہی۔
اس سبب سے امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو ایک مقام پر ٹھہرنا پڑا۔ چاروں طرف سے تیر آ رہے تھے اور جسم نورانی زخموں سے چور چور ہو چکا تھا ایک تیر پیشانی اقدس پر لگا یہ وہ پیشانی تھی جس پر مصطفیٰ کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بوسے لیا کرتے تھے۔

ان ظالم بے ادبوں نے اس پیشانی کو زخمی کردیا اور امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو چکر آگئے اور آپ اپنے گھوڑے سے نیچے تشریف لائے اور اپنے پروردگار کہ حضور سجدے میں چلے گئے اسی حالت سجدہ میں ایک ظالم نے آپ پر نیزے سے حملا کیا اور آپ 10 محرم سن 61 ہجری بروز جمعہ 56 سال 5 ماہ 5 دن کی عمر میں شہید ہو گئے۔

ظلم کی یہ داستان ابھی یہاں پر ختم نہ ہوئی یزیدیوں نے سر مبارک کو جسم نازنین سے جدا کرنے کی ناپاک کوششیں شروع کیں۔ نظر ابنِ خرشا اس ناپاک ارادے سے آگے بڑھا مگر حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی ہیبت سے اس کے ہاتھ کانپنے لگے اور تلوار ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر گر پڑی، ایک اور ظالم اور سخت دل جس کا نام ہے خولی ابن یزید وہ آگے بڑھا اور آپ کے سر اقدس کو مبارک جسم سے جدا کر دیا۔
اس کے بعد حضرت سید الشہدا امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے تمام جانباز بھادر شہداء کے مبارک سروں کو اہل بیت اطہر کے ساتھ شمر ناپاک کی ہمراہی میں یزید پلید کے پاس دمشق بھیجا گیا۔

یزید نے سر مبارک اور اہل بیت اطہر کو حضرت امام زین العابدین کے ساتھ مدینہ منورہ روانہ کیا۔ اور وہاں امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کا سر اقدس آپ کی پیاری امی جان حضرت خاتون جنت شہزادی کونین سیدہ فاطمۃ الزہر رضی اللہ تعالی عنہ اور  آپ کے بھائی جان حضرت امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ تعالی عنہ کے پہلو میں دفن کیا گیا۔

Post a Comment

Previous Post Next Post